Thursday, January 20, 2011

سکنجبین بارد کی تیاری کا طریقہ

سکنجبین کا نام آتے ہی گرمیوں‌ کے موسم میں لیموں اور چینی سے تیار کیا جانے والا شربت یاد آ جاتا ہے۔ لیکن طب کی زبان میں سکنجبین شہد اور سرکے کے شربت کو کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ دو لفظوں‌ سرکہ اور انگبین کا مجموعہ ہے۔ اس کی تیاری بہت آسان ہے۔ 100 ملی لیٹر شہد میں 200 ملی لیٹر سرکہ شامل کریں اور اس آمیزے میں 600 ملی لیٹر صاف پانی شامل کر کے اس 900 ملی لیٹر آمیزے کو آگ پر چڑھائیں جب نصف یعنی 450 ملی لیٹر رہ جائے اتار کر محفوظ کر لیں۔ ایک یا دو چمچ حسب ضرورت استعمال کریں۔ یہ سکنجبین بارد یعنی سرد کا طریقہ ہے۔ سرد مزاجوں‌ کو سکنجبین حار استعمال کرنی چاہیے اس کے لیے اسی نسخہ میں شہد اور سرکہ کی مقداروں کو بدل دیں۔ تیاری اور استعمال کا طریقہ یہی ہے۔ اگر چند ماہ اس دوا کے ساتھ مداومت کر لی جائے تو جسم میں موجود قریبآ تمام بیماریوں‌ کو ختم کردیتی ہے۔ اعضائے رئیسہ کو تقویت دیتی ہے۔

صفراوی مزاج کی علامات

واضح ہو کہ صفراء کا مزاج گرم خشک اور رنگ زرد ہے اس مزاج کے حامل افراد کو پیاس زیادہ لگتی ہے اور بھوک کم۔ منہ کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ خارش اور قبض بھی بعض اوقات اسی سبب سے ہوتی ہیں۔ ناک، کان اور آنکھ میں خشونت یا کھردرا پن موجود رہتا ہے۔ متلی اور پھریری آتی ہے۔ صفراء کا جتنا زیادہ غلبہ ہوگا اتنی ہی اس کی زرد رنگت جلد، زبان، آنکھ اور قارورہ سے ظاہر ہوگی۔ صفراوی مزاج والے افراد کو گرم اشیاء کے کھانے سے تکلیف اور سرد غذا کھانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ صفراء کو اعتدال پر لانے کے لیے سکنجبین بارد ایک بہترین غذائی ٹانک کے ساتھ مؤثر دوا بھی ہے۔

Wednesday, January 19, 2011

نسخہ ءِ منظوم برائے ورم جگر

یہ نسخہ حضرت خواجہ غلام فخر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے مجموعہ کلام "باب جبریل" سے لیا گیا ہے۔
برائے ورم جگر
لاؤ ہیرا کسیس و افنستین
اور نوشادر مساوی ہوں ہر تین
تین ماشے سفوف کی ہے خوراک
فخر ورم جگر کو دے تسکین

Tuesday, January 18, 2011

دموی مزاج کی علامات

دموی مزاج خون کے غلبہ سے ہوتا اور جیسا کہ کہا گیا ہے کہ خون کا مزاج گرم تر ہوتا ہے۔ اس مزاج کی مخصوص علامات یہ ہیں۔ دموی مزاج والے افراد کا اکثر سر بھاری رہتا ہے۔ انہیں انگڑائی اور جماہی زیادہ آتی ہے۔ ایک گونہ غنودگی ہر وقت طاری رہتی ہے۔ منہ کا ذائقہ میٹھا ہوتا ہے۔ اور جلد کی رنگت سے سرخی ظاہر ہوتی ہے۔ آنکھوں میں بھی سرخ ڈورے نظر آتے ہیں۔ دموی مزاج والوں کے جسم پر پھوڑے پھنسیاں زیادہ نکلتی ہیں۔ مسوڑھوں اور ناک بات بے بات خون جاری ہو جاتا ہے۔ اور جسم میں اکثر درد اور سستی رہتی ہے۔
اس مزاج کے حامل افراد کو بہت جلد غصہ آتا ہے لیکن بہت جلد اتر جاتا ہے۔ یہ عام طور پر خوشامد پسند اور تعاون کرنے والے ہوتے ہیں۔ دموی مزاج والے لوگ اکثر گرم غذاؤں کے سبب بیمار پڑتے ہیں۔ جونہی وہ زیادہ مرچ، مصالحہ والی مرغن غذائیں کھائیں گے ان کی تکالیف میں اضافہ ہوگا اور سرد غذائیں کھانے سے انہیں آسودگی اور آرام پہنچے گا۔ ایسے مزاج والے افراد کو لازم ہے کہ وہ اپنی غذا میں دھنیا اور لیموں کا استعمال کریں یہ جوش خون کو بٹھاتی ہیں اگر خون گاڑھا ہو تو اس کے لیے املی آلو بخارے کا شربت سونف کا پانی اور مائ العسل استعمال کرتے رہنا چاہیے۔

Monday, January 17, 2011

مرزا غالب کا مزاج اور مزاج ساذج اور مادی کا فرق

    مزاج بنیادی طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں یعنی گرم یا سرد۔ ان کو مزید دو قسموں تر اور خشک میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ یعنی گرم تر ، گرم خشک اور سرد تر ، سرد خشک۔ اب گرمی یا سردی، تر ہو یا خشک انسانی صحت پر دو طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک تو بیرونی طور پر جیسا کہ گرم یا سرد ماحول میں‌ رہنے سے یا گرم یا سرد ہوا لگنے سے اور دوسرے اندرونی طور پر یعنی اخلاط اربع میں کسی خلط کے غلبہ کی صورت میں۔ جب طبیعت پر بیرونی طور پر سردی یا گرمی کے اثرات مرتب ہو کر صحت کو متاثر کریں تو اس کو طب کی زبان میں سوئے مزاج ساذج کہا جاتا ہے۔ ساذج عربی زبان میں سادہ کو کہتے یعنی وہ چیز یا شخص جو بے تصنع ہوتا ہے ساذج کہلاتا ہے۔ اس لیے گرمی یا سردی چاہے خشک ہو یا تر جب انسانی صحت پر بیرونی طور پر منفی اثر ڈالتی ہے تو اس کو سوئے مزاج سادہ بھی کہتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہونے والی تکالیف کے لیے عام طور پر علاج یا دوا کی ضرورت نہیں ہوتی اور عمومآ بیرونی طور پر گرمی یا سردی پہنچانے سے تکلیف دور ہو جاتی ہے۔ جیسے گرمی لگنے کی صورت میں ٹھنڈے پانی سے نہانا یا ٹھنڈی جگہ پر ٹھہرنا یا سردی لگنے کی صورت میں آگ تاپنا یا گرم لباس زیب تن کرنا یا سرد مقام پر ٹھہرنا۔
    اس کے مقابل سوئے مزاج مادی ہے یعنی مزاج کا حقیقی بگاڑ یہ جگر میں‌ پیدا ہونے والی چاروں اخلاط میں سے ایک خلط کے غلبہ کی وجہ سے حادث ہوتا ہے۔ اخلاط اربعہ یہ ہیں۔ خون، صفرا، بلغم اور سودا ان چاروں کے رنگ صفات اور جسم انسانی پر اثرات مخلتف ہیں۔
خون کا مزاج گرم تراور رنگ سرخ ہے۔۔۔ صفرا کا مزاج گرم خشک اور رنگ زرد ہے۔۔۔ بلغم کا مزاج سرد تر اور رنگ سفید ہے۔۔۔ اور سودا کا مزاج سرد خشک اور رنگ سیاہ ہے۔ ان اخلاط سے وابستہ مزاجوں کو بالترتیب دموی، صفراوی، بلغمی اور سوداوی کہا جاتا ہے۔ اور اپنے مزاجوں کے رنگ ان کی جلد آنکھوں اور قارورہ سے عیاں ہوتے ہیں اور آدمی کے طبی مزاج کا پتہ دیتے ہیں۔
    اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب بلغمی مزاج کے حامل تھے اور اس پر دال ان کا ایک مشہور شعر زبان زد خاص و عام ہے جو علم طب سے ان کی شناسائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مرزا غالب کہتے ہیں۔
پی جس قدر ملے شب مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
بلغمی مزاج پر تر سردی کا غلبہ رہتا ہے اور شراب کا مزاج گرم خشک ہے یہ بلغمی مزاج کو بطور دوا پورا فائدہ دیتی ہے۔ مرزا غالب کے بعض مکاتیب سے بھی ان کی علم طب سے شناسائی کا پتا چلتا ہے خصوصآ امراض باردہ یعنی سرد امراض کے علاج پر انہیں خاص طور پر غلبہ حاصل تھا۔
 

Sunday, January 16, 2011

Tibb-e-Unani: طب یونانی میں درد سر کا علاج

Tibb-e-Unani: طب یونانی میں درد سر کا علاج: "درد سر کئی قسم کا ہوتا ہے ایک ساذج جو امور خارجیہ سے پیدا ہوتا ہے جیسا کہ دھوپ یا آگ یا ہوا کی گرمی یا دوائے گرم کھانے سے پیدا ہو تو وہ حار ..."

طب یونانی میں درد سر کا علاج

درد سر کئی قسم کا ہوتا ہے ایک ساذج جو امور خارجیہ سے پیدا ہوتا ہے جیسا کہ دھوپ یا آگ یا ہوا کی گرمی یا دوائے گرم کھانے سے پیدا ہو تو وہ حار ساذج ہے۔ اگر آب سرد کے استعمال یا مقام سرد میں ٹھہرنے یا ہوائے سرد لگنے یا ادویہ سرد کھانے سے پیدا ہو بارد ساذج ہے۔ حار ساذج میں صندل سونگھنا اور بارد ساذج میں کستوری سونگھنا نفع دیتا ہے۔
اقتباس مفید العلاج از حکیم میراں بخش قادری رحمۃ اللہ علیہ