Monday, January 17, 2011

مرزا غالب کا مزاج اور مزاج ساذج اور مادی کا فرق

    مزاج بنیادی طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں یعنی گرم یا سرد۔ ان کو مزید دو قسموں تر اور خشک میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ یعنی گرم تر ، گرم خشک اور سرد تر ، سرد خشک۔ اب گرمی یا سردی، تر ہو یا خشک انسانی صحت پر دو طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک تو بیرونی طور پر جیسا کہ گرم یا سرد ماحول میں‌ رہنے سے یا گرم یا سرد ہوا لگنے سے اور دوسرے اندرونی طور پر یعنی اخلاط اربع میں کسی خلط کے غلبہ کی صورت میں۔ جب طبیعت پر بیرونی طور پر سردی یا گرمی کے اثرات مرتب ہو کر صحت کو متاثر کریں تو اس کو طب کی زبان میں سوئے مزاج ساذج کہا جاتا ہے۔ ساذج عربی زبان میں سادہ کو کہتے یعنی وہ چیز یا شخص جو بے تصنع ہوتا ہے ساذج کہلاتا ہے۔ اس لیے گرمی یا سردی چاہے خشک ہو یا تر جب انسانی صحت پر بیرونی طور پر منفی اثر ڈالتی ہے تو اس کو سوئے مزاج سادہ بھی کہتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہونے والی تکالیف کے لیے عام طور پر علاج یا دوا کی ضرورت نہیں ہوتی اور عمومآ بیرونی طور پر گرمی یا سردی پہنچانے سے تکلیف دور ہو جاتی ہے۔ جیسے گرمی لگنے کی صورت میں ٹھنڈے پانی سے نہانا یا ٹھنڈی جگہ پر ٹھہرنا یا سردی لگنے کی صورت میں آگ تاپنا یا گرم لباس زیب تن کرنا یا سرد مقام پر ٹھہرنا۔
    اس کے مقابل سوئے مزاج مادی ہے یعنی مزاج کا حقیقی بگاڑ یہ جگر میں‌ پیدا ہونے والی چاروں اخلاط میں سے ایک خلط کے غلبہ کی وجہ سے حادث ہوتا ہے۔ اخلاط اربعہ یہ ہیں۔ خون، صفرا، بلغم اور سودا ان چاروں کے رنگ صفات اور جسم انسانی پر اثرات مخلتف ہیں۔
خون کا مزاج گرم تراور رنگ سرخ ہے۔۔۔ صفرا کا مزاج گرم خشک اور رنگ زرد ہے۔۔۔ بلغم کا مزاج سرد تر اور رنگ سفید ہے۔۔۔ اور سودا کا مزاج سرد خشک اور رنگ سیاہ ہے۔ ان اخلاط سے وابستہ مزاجوں کو بالترتیب دموی، صفراوی، بلغمی اور سوداوی کہا جاتا ہے۔ اور اپنے مزاجوں کے رنگ ان کی جلد آنکھوں اور قارورہ سے عیاں ہوتے ہیں اور آدمی کے طبی مزاج کا پتہ دیتے ہیں۔
    اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب بلغمی مزاج کے حامل تھے اور اس پر دال ان کا ایک مشہور شعر زبان زد خاص و عام ہے جو علم طب سے ان کی شناسائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مرزا غالب کہتے ہیں۔
پی جس قدر ملے شب مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
بلغمی مزاج پر تر سردی کا غلبہ رہتا ہے اور شراب کا مزاج گرم خشک ہے یہ بلغمی مزاج کو بطور دوا پورا فائدہ دیتی ہے۔ مرزا غالب کے بعض مکاتیب سے بھی ان کی علم طب سے شناسائی کا پتا چلتا ہے خصوصآ امراض باردہ یعنی سرد امراض کے علاج پر انہیں خاص طور پر غلبہ حاصل تھا۔
 

No comments:

Post a Comment